نظیر اکبرآبادی اردو نظم کے پہلے شاعر تھے۔
نظم میں کسی ایک مسلسل خیال یا موضوع کی وضاحت ہوتی ہے۔
اس میں ردیف اور قافیے کی پابندی ضروری نہیں ہوتی، بلکہ خیالات کی ترتیب اہم ہوتی ہے۔
تلمیح سے مراد ہے کہ ایک لفظ یا مجموعہ الفاظ کے ذریعے کسی تاریخی' سیاسی' اخلاقی یا مذہبی واقعے کی طرف اشارہ کیا جائے۔
پانی برف کی طرح ٹھنڈا ہے۔ اس جملے میں علم بیان کی تشبیہ خوبی استعمال ہوئی ہے۔
یہ محاورہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ طاقت ور شخص اپنے ارد گرد کے حالات یا لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرتا ہے۔
اس میں "لاٹھی" طاقت کی علامت ہے، اور "بھینس" اس طاقت کے استعمال یا اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔
وہ حروف یا الفاظ جو کسی لفظ کے بعد لگائے جائیں اور اس کے معنی میں تبدیلی پیدا کریں، وہ لاحقے کہلاتے ہیں۔
لاحقہ وہ لفظ ہوتا ہے جو کسی بنیادی لفظ کے آخر میں لگ کر اس کے معنی یا نوعیت کو بدل دیتا ہے، جیسے "پڑھنا" سے "پڑھناہوا"۔
چین بہ جبیں ہونا کا مطلب ہے پیشانی پر بل پڑنا یا غصہ ظاہر ہونا۔
یہ محاورہ کسی کی ناراضگی یا ناگواری ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
خوف ناک میں "ناک" ایک لاحقہ ہے، جو اسم "خوف" کے ساتھ مل کر "خوف ناک" بناتا ہے۔
یہ لاحقہ اسم کو مزید وضاحت دینے یا اس کی خصوصیت ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
مرکب الفاظ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو دو یا زیادہ الفاظ سے مل کر ایک نیا معنی دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر: "دستک" (دست + ک) یا "سردی" (سرد + ی)۔
ارے مخاطب کو بلانے یا متوجہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی لیے یہ حرف ندا ہے۔
قواعد میں حروف ندا الفاظ یا جملوں کے آغاز میں آکر کسی کو پکارنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے "اے، او، ارے" وغیرہ۔
علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں نوجوانوں کو "شاہین" سے تشبیہ دی۔
انہوں نے شاہین کو خودداری، بلند پروازی اور جرأت کی علامت قرار دیا۔