سفر معراج کے پہلے حصے کو "اسراء" کہا جاتا ہے، جس میں نبی کریم ﷺ کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا۔
یہ واقعہ سورۃ الإسراء (آیت 1) میں بیان ہوا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے اسے "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ" کے الفاظ سے ذکر فرمایا۔
صلح حدیبیہ کے مطابق، اگلے سال مسلمان عمرہ ادا کرنے مکہ آئیں گے لیکن ان کی تلواریں نیام میں ہونگی۔
یہ شرط امن اور عدم جارحیت کی علامت تھی تاکہ قریش کو خطرہ محسوس نہ ہو۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام زمعہ بن قیس تھا۔
آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری زوجہ تھیں۔
آیت: وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
ترجمہ: اور کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔
یہ آیت سورۃ الاسراء (بنی اسرائیل)، آیت نمبر 81 میں موجود ہے۔
مکمل حدیث: للا إيمان لمن لا أمانة له ولا دين لمن لا عهد له
مطلب: جس شخص میں امانت داری نہ ہو اور جو اپنے وعدوں کا پابند نہ ہو، اس کا ایمان اور دین مکمل نہیں۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت سے چادر ہٹائی تو انہوں نے مہر نبوت کو دیکھا۔
یہ نشان نبوت رسول اللہ ﷺ کی پشت پر موجود تھا، جو حضرت سلمان فارسی کے لیے ایک واضح دلیل تھی کہ آپ ہی وہ نبی ہیں جن کا ذکر کتابوں میں آیا تھا۔
ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق
وہ شیعہ محدث اور فقیہ تھے، جنہوں نے حدیث کی مشہور کتاب الکافی تصنیف کی۔
یہ کتاب حدیث، فقہ اور عقائد پر مشتمل ہے اور شیعہ کتب اربعہ میں شامل ہے۔
ناموس کا مطلب ہے راز یا وحی لانے والا — یہ لقب حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیا گیا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کرام پر وحی لانے کے ذمہ دار فرشتہ ہیں۔
کراماً کاتبین کا ذکر آیات الإنفطار کی آیت 10 اور 11 میں آیا ہے۔
یہ فرشتے انسان کے اعمال لکھنے والے معزز فرشتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کے پاس سفیر بنا کر بھیجا تھا۔
حضرت دحیہ نے قیصر روم کے دربار میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچایا تھا۔