تشبیہ کا لفظ "شبہ" سے نکلا ہے جس کے معانی "مماثل ہونا" کے ہیں۔
علم بیان کی اصطلاح میں جب کسی ایک شے کی کسی اچھی یا بری خصوصیت کو کسی دوسری شے کی اچھی یا بری خصوصیت کے معنی قرار دیا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔
تشبیہ کے پانچ ارکان ہیں۔تشبیہ کے ارکان
مشبّہ:جس چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دیا جائے وہ مشبّہ کہلاتی ہے۔
مشبہ بہ:وہ چیز جس کے ساتھ کسی دوسری چیز کو تشبیہ دی جائے یا مشبہ کو جس چیز سے تشبیہ دی جائے۔
حرفِ تشبیہ:وہ لفظ جو ایک چیز کو دوسری چیز جیسا ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے حرف تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً ہو بہو،مثل، گویا،صورت، جوں، سا، سی، سے، جیسا، جیسے، جیسی، مثال یا کہ وغیرہ۔ حرف تشبیہ کو اداتِ تشبیہ بھی کہا جاتا ہے۔
وجہِ شبہ: وجہ شبہ سے مراد وہ خوبی ہے جس کی بنا پر مشبہ کو مشبہ بہ سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
غرضِ تشبیہ:وہ مقصد یا غرض جس کے لیے تشبیہ دی جائے۔
کسی لفظ کے شروع میں کوئی علامت لگا کر اس سے ایک نیا لفظ بنالیا جاتا ہے۔ اس علامت کو "سابقہ" کہتے ہیں۔
جیسے کہ "ادب" کے آگے "بے" لگا کر "بےادب" اور "سمجھ" کے آگے "نا" لگا کے "ناسمجھ" بنالیا جاتا ہے اور "مول" سے "انمول"۔۔۔۔اس مثال میں "بے" "نا" اور "ان" سابقے ہیں۔
کسی لفظ کے آخر میں کوئی علامت لگا کر اس سے نیا لفظ بنایا جائے تو اسے "لاحقہ" کہا جاتا ہے۔
جیسے "ضرورت" کے آخر میں "مند" لگا کر "ضرورتمند" اور "درد" کے آخر میں "ناک" لگا کر "دردناک"۔۔۔یہاں "مند" اور "ناک" لاحقے ہیں۔